پہلی دفعہ جب رزق حلال کے لئے پردیسی بننا پڑا تو منزل یورپ تھی
،جہاں آنکھوں میں کچھ خواب تھے وہی اپنوں سے دوری کا سخت احساس بی تھا اور خاص طور سے ماں جی سے دور ہونا ایک کٹھن امتحان ہی لگ رہا تھا ،ان کے لئے بی بیٹے کی جدائی بہت مشکل تھی لیکن میری خوشی کے لئے انھوں نے اپنے چہرے پر ایسی مسکرھاہٹ سجائی اور ایسا اطیمنان تھا کے میری دلی تشویش کے باوجود بی میں یہ نہ سمھجا کے وہ پرشان ہے اور مجھے بس یہی لگا کے میرے اچھے مستقبل کے لئے وہ بی پرسکون ہے اور اسی بات کو لئے میں نے دل کو تسلی دے کے سفر تہہ کیا ،لیکن دیار غیر میں مجھے اپنوں اور خاص طور سے ماں جی کی یاد نے پہلے ٢ سے ٣ ماہ بہت رلایا میرا دل کرتا تھا کے آج ہی ان لوگوں کے پاس چلا جاؤں لیکن ہمیشہ ہی ماں جی نے دل کو بہت تسلی دی تو مجھے لگتا کے ان کو کیا میری یاد نہی آتی کیا ان کا دل نہی کرتا کے میں ان کے پاس آ جاؤں اور ہمشیہ ان کے پاس رہوں کیا آج کے زمانے میں دولت کی اہمیت اپنوں سے زیادہ اتنی ہو گی ہے کے ماں جی مجھے واپس آنے کی بجایے کہتی ہے کے وہی رہو اور کام کرو ،میرے جتنے بی خواب تھے مجھے اب وہ برے لگنے لگے- پردیس سے نفرت اور وطن واپس آنے کی تمنا ہونے لگی ،خیر وقت گزارا کچھ سال بعد میری خالہ جان کو اپنے علاج کے لئے یہی یورپ آنا پڑا ان کے ٢ ننے منھے بچے ہیں ان کو آے ہوئے ابھی ٣ دن ہی ہوئے ہوں گہے کے پاکستان سے فون آیا کے آپ کا بیٹا بیمار ہے آپ کی جدائی کی وجہ سے،تو دوستو اس دن ان کے چہرے پ جو کرب تھا جو ممتا تھی اور ان کی آنکھوں میں جو اپنے بیٹے کی جدائی کا غم تھا وہ مجے میری ساری باتوں کا جواب دے گیا تھا ،اور مجھے ماں جی کی وہ تسلیاں یاد آنے لگی جس کے پیچھے کا کرب اور ممتا میں آج تک پہچان ہی نہ سکا تھا اور اک ماں کے چہرے نے ساری بات کھول کے رکھ دی تھی مجے سوچ آیی کے اگر میں اتنا پریشان رہا تھا تو ماں جی ،،،،،اف الله ماں بی کتنی عظیم ہوتی ہے نا اپنے بچوں کے لئے کیا کیا درد نہی برداشت کرتی حتہ کے اپنی اولاد کی جدائی بی اور ہم کیا کیا سمجتھے رہتے ہیں ،
ہمیں چاہئے کے اپنی ماں کی خوشی میں خوش ہو جائے کیوں کے وہ بی ہماری ہی خوشی چاہ رہی ہوتی ہے ،الله پاک سب کی ماؤں کو سلامت رکھے اور ہمیں ان کی ہمشہ خدمت کرنے کی توفیق عطا فرماے امین